وہ مرے دل کے طلب گار نظر آتے ہیں
وہ مرے دل کے طلب گار نظر آتے ہیں
شادمانی کے اب آثار نظر آتے ہیں
جو مرے نام سے بیزار نظر آتے تھے
اب وہی دل کے طلب گار نظر آتے ہیں
اب محبت کے پرستار کہاں اے ساقی
سب محبت کے خریدار نظر آتے ہیں
اب کے گلشن میں عجب رنگ سے آئی ہے بہار
شاخ گل پر بھی ہمیں خار نظر آتے ہیں
ہائے امید کا پابند کرم ہو جانا
آج ہم زیست سے بیزار نظر آتے ہیں
حشر میں کس سے کروں کس کی شکایت اے دل
سب اسی بت کے طرف دار نظر آتے ہیں
خود منانے کو جنہیں رحمت حق آئی ہے
اونچے درجے کے گناہ گار نظر آتے ہیں
یہ ہے مے خانہ تو پھر آج سے میری توبہ
سب یہاں زاہد و دیں دار نظر آتے ہیں
اس کی بیگانہ روی کا یہ فسوں تو دیکھو
آج احباب بھی اغیار نظر آتے ہیں
پھر وہ مائل بہ کرم ہونے لگے ہیں ساحرؔ
پھر غم و رنج کے آثار نظر آتے ہیں