وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا
وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا
مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا
برے اچھے ہوں جیسے بھی ہوں سب رشتے یہیں کے ہیں
کسی کو ساتھ دنیا سے کوئی لے کر نہیں جاتا
گھروں کی تربیت کیا آ گئی ٹی وی کے ہاتھوں میں
کوئی بچہ اب اپنے باپ کے اوپر نہیں جاتا
کھلے تھے شہر میں سو در مگر اک حد کے اندر ہی
کہاں جاتا اگر میں لوٹ کے پھر گھر نہیں جاتا
محبت کے یہ آنسو ہیں انہیں آنکھوں میں رہنے دو
شریفوں کے گھروں کا مسئلہ باہر نہیں جاتا
وسیمؔ اس سے کہو دنیا بہت محدود ہے میری
کسی در کا جو ہو جائے وہ پھر در در نہیں جاتا