وہ مصاف زیست میں ہر موڑ پر تنہا رہا
وہ مصاف زیست میں ہر موڑ پر تنہا رہا
پھر بھی ہونٹوں پر نہ اس کے کوئی بھی شکوہ رہا
جو سدا تشنہ لبوں کے واسطے دریا رہا
عمر بھر وہ خود بہ نام دوستاں پیاسا رہا
عقل حیراں ہے جنوں بھی دم بخود ہے سوچ کر
وہ ہجوم کشتگاں میں کس طرح زندہ رہا
پھولنے پھلنے کا موقع تو کہاں ان کو ملا
نیم جاں پودوں پہ جب تک آپ کا سایہ رہا
علقمہ شبلیؔ ہوا کیسی چلی گلزار میں
آشیاں میں بھی پرندہ وقت کا سہما رہا