وہ ماہتاب ابھی بام پر نہیں آیا
وہ ماہتاب ابھی بام پر نہیں آیا
مری دعاؤں میں شاید اثر نہیں آیا
بہت عجیب ہے یاروں بلندیوں کا طلسم
جو ایک بار گیا لوٹ کر نہیں آیا
یہ کائنات کی وسعت کھلی نہیں مجھ پر
میں اپنی ذات سے جب تک گزر نہیں آیا
بہت دنوں سے ہے بے شکل سی میری مٹی
بہت دنوں سے کوئی کوزہ گر نہیں آیا
بس ایک لمحہ کو بے پیراہن اسے دیکھا
پھر اس کے بعد مجھے کچھ نظر نہیں آیا
ہم اب بھی دشت میں خیمہ لگائے بیٹھے ہیں
ہمارے حصے میں اپنا ہی گھر نہیں آیا
زمین بانجھ نہ ہو جائے کچھ کہو اظہرؔ
سخن کی شاخ پہ کب سے ثمر نہیں آیا