وہ خیالوں میں بھی اس طرح گزر جاتے ہیں

وہ خیالوں میں بھی اس طرح گزر جاتے ہیں
ان کے گیسو مرے شانوں پہ بکھر جاتے ہیں


زندگی ان کی بھی ہے ایک مہاجر کی طرح
اشک بے چارے کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں


پہلے خود آ کے سنورتے تھے خود آئینے میں
اب انہیں دیکھ کے آئینے سنور جاتے ہیں


حادثے اتنے گزرتے ہیں ہمارے دل پر
ہم تو بچوں کی طرح خواب میں ڈر جاتے ہیں


دل کو تسکین نہ ملتی تھی کبھی جن کے بغیر
ہائے وہ چہرے بھی کیوں دل سے اتر جاتے ہیں