وہ جو چھپ جاتے تھے کعبوں میں صنم خانوں میں
وہ جو چھپ جاتے تھے کعبوں میں صنم خانوں میں
ان کو لا لا کے بٹھایا گیا دیوانوں میں
فصل گل ہوتی تھی کیا جشن جنوں ہوتا تھا
آج کچھ بھی نہیں ہوتا ہے گلستانوں میں
آج تو تلخیٔ دوراں بھی بہت ہلکی ہے
گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانوں میں
آج تک طنز محبت کا اثر باقی ہے
قہقہے گونجتے پھرتے ہیں بیابانوں میں
وصل ہے ان کی ادا ہجر ہے ان کا انداز
کون سا رنگ بھروں عشق کے افسانوں میں
شہر میں دھوم ہے اک شعلہ نوا کی مخدومؔ
تذکرے رستوں میں چرچے ہیں پری خانوں میں