وہ جئیں کیا جنہیں جینے کا ہنر بھی نہ ملا
وہ جئیں کیا جنہیں جینے کا ہنر بھی نہ ملا
دشت میں خاک اڑاتے رہے گھر بھی نہ ملا
خس و خاشاک سے نسبت تھی تو ہونا تھا یہی
ڈھونڈنے نکلے تھے شعلے کو شرر بھی نہ ملا
نہ پرانوں سے نبھی اور نہ نئے ساتھ چلے
دل ادھر بھی نہ ملا اور ادھر بھی نہ ملا
دھوپ سی دھوپ میں اک عمر کٹی ہے اپنی
دشت ایسا کہ جہاں کوئی شجر بھی نہ ملا
کوئی دونوں میں کہیں ربط نہاں ہے شاید
بت کدہ چھوٹا تو اللہ کا گھر بھی نہ ملا
ہاتھ اٹھے تھے قدم پھر بھی بڑھایا نہ گیا
کیا تعجب جو دعاؤں میں اثر بھی نہ ملا
بزم کی بزم ہوئی رات کے جادو کا شکار
کوئی دلدادۂ افسون سحر بھی نہ ملا