وہ جب آپ سے اپنا پردا کریں

وہ جب آپ سے اپنا پردا کریں
تو بند قبا کس طرح وا کریں


اگر ہم نہ ان کی تمنا کریں
تو وہ ہم پہ کیوں ناز بے جا کریں


اسے لوگ کیوں مہر تاباں کہیں
جسے دور سے بھی نہ دیکھا کریں


کیا اس نے قتل اور میں نے معاف
عبث اہل شہر اس کا چرچا کریں


پھرے قیس آوارہ ہم وہ نہیں
کہ معشوق کو اپنی رسوا کریں


مرے درد دل کی ہی پرسش دوا
اگر مجھ کو پوچھیں تو اچھا کریں


خدا بے نیاز اور بت سنگ دل
کہو کس سے ہم راہ پیدا کریں


چلو پھر کہیں ان سے ہم حال دل
یہی پھر کہیں گے کہ ہم کیا کریں


جنہیں فصل گل میں نہ ہو دسترس
کہ سامان عشرت مہیا کریں


وہ قمری و بلبل کو مطرب بنائیں
گل و سرو کو جام و مینا کریں


انہیں کیا ہو ناظمؔ قیامت کا ڈر
جو ہر روز اک فتنہ برپا کریں