وہ اک نگاہ جو خاموش سی ہے برسوں سے

وہ اک نگاہ جو خاموش سی ہے برسوں سے
یہ کون جانے وہ کیا کہہ رہی ہے برسوں سے


ہمارے چہروں پہ اب اپنا پن نہیں اگتا
یہ وہ زمیں ہے جو بنجر پڑی ہے برسوں سے


بدن کا سارا لہو مانگتا ہے وہ اک لفظ
نگاہ ذہن کی جس پر ٹکی ہے برسوں سے


کہاں سے لاؤں وہ تصویر جو بنی ہی نہیں
نظر میں گرد اڑے جا رہی ہے برسوں سے


مری نگاہ میں دن ہے مرے بدن میں ہے رات
مری کتاب ادھوری پڑی ہے برسوں سے


سمندروں میں کبھی بادلوں کے خیموں میں
اک آگ مجھ کو لئے پھر رہی ہے برسوں سے


کہاں کہاں لئے پھرتی ہے رات کو عابدؔ
وہ اک صدا جو مجھے ڈھونڈھتی ہے برسوں سے