وہ ہنس ہنس کے وعدے کیے جا رہے ہیں

وہ ہنس ہنس کے وعدے کیے جا رہے ہیں
فریب تمنا دیے جا رہے ہیں


ترا نام لے کر جیے جا رہے ہیں
گناہ محبت کیے جا رہے ہیں


مرے زخم دل کا مقدر تو دیکھو
نگاہوں سے ٹانکے دیے جا رہے ہیں


نہ کالی گھٹائیں نہ پھولوں کا موسم
مگر پینے والے پیے جا رہے ہیں


تری محفل ناز سے اٹھنے والے
نگاہوں میں تجھ کو لیے جا رہے ہیں


مرے شوق دیدار کا حال سن کر
قیامت کے وعدے کیے جا رہے ہیں


حریم تجلی میں ذوق نظر ہے
نگاہوں سے سجدے کیے جا رہے ہیں


ابھی ہے اسیری کا آغاز ماہرؔ
ابھی تو فقط پر سیے جا رہے ہیں