وہ ہم سے آج بھی دامن کشاں چلے ہے میاں
وہ ہم سے آج بھی دامن کشاں چلے ہے میاں
کسی پہ زور ہمارا کہاں چلے ہے میاں
جہاں بھی تھک کے کوئی کارواں ٹھہرتا ہے
وہیں سے ایک نیا کارواں چلے ہے میاں
جو ایک سمت گماں ہے تو ایک سمت یقیں
یہ زندگی تو یوں ہی درمیاں چلے ہے میاں
بدلتے رہتے ہیں بس نام اور تو کیا ہے
ہزاروں سال سے اک داستاں چلے ہے میاں
ہر اک قدم ہے نئی آزمائشوں کا ہجوم
تمام عمر کوئی امتحاں چلے ہے میاں
وہیں پہ گھومتے رہنا تو کوئی بات نہیں
زمیں چلے ہے تو آگے کہاں چلے ہے میاں
وہ ایک لمحۂ حیرت کہ لفظ ساتھ نہ دیں
نہیں چلے ہے نہ ایسے میں ہاں چلے ہے میاں