وہ ایک شخص جو محفل میں بولتا تھا بہت
وہ ایک شخص جو محفل میں بولتا تھا بہت
سنا ہے اہل نظر سے وہ کھوکھلا تھا بہت
ردائے شب سے لپٹ کے سواد شام کے بعد
کسی کے بارے میں پہروں میں سوچتا تھا بہت
ابھی جو پاس سے نظریں چرا کے گزرا ہے
گئی رتوں میں وہی مجھ کو چاہتا تھا بہت
اس اجنبی نے بالآخر پلٹ کے دیکھ لیا
طلسمی شہر میں کوئی پکارتا تھا بہت
جو بات بات پہ ہنستا تھا مسکراتا تھا
کسے خبر کہ وہی دل میں رو رہا تھا بہت
کچھ ایسے اہل جنوں بھی یہاں سے گزرے تھے
غبار راہ وفا جن کو ڈھونڈھتا تھا بہت
جو پوچھتے ہو مجھے تم کو یاد ہو شاید
کوئی نظر سے تمہاری کبھی گرا تھا بہت