وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے

وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے
چراغ دل کے اندھیرے میں جل گئے کیسے


بنا دیا تھا زمانے نے برف کے مانند
ہم ایک شوخ کرن سے پگھل گئے کیسے


امید جن سے تھی وضع جنوں نبھانے کی
وہ لوگ وقت کے سانچے میں ڈھل گئے کیسے


ستارے جذب ہوئے گرد راہ میں کیا کیا
خیال و خواب کے آئیں بدل گئے کیسے


خزاں سے جن کو بچا لائے تھے جتن کر کے
وہ نخل اب کے بہاروں میں جل گئے کیسے


نہ جانے کیوں جنہیں سمجھے تھے ہم فرشتے ہیں
قریب آئے تو چہرے بدل گئے کیسے


ہر ایک سایۂ دیوار کی لپیٹ میں ہے
سرورؔ آپ ہی بچ کر نکل گئے کیسے