وہ دن گئے کہ چھپ کے سر بام آئیں گے
وہ دن گئے کہ چھپ کے سر بام آئیں گے
آنا ہوا تو اب وہ سر عام آئیں گے
سوچا نہ تھا کہ ابر سیہ پوش سے کبھی
کوندے تیرے بدن کے مرے نام آئیں گے
اس نخل نا مراد سے جو پات جھڑ گئے
اندھی خنک ہواؤں کے اب کام آئیں گے
آنسو ستارے اوس کے دانے سفید پھول
سب میرے غم گسار سر شام آئیں گے
رکھ تو انہیں بچا کے کسی اور کے لیے
یہ قول یہ قرار ترے کام آئیں گے
لوٹے اگر سفر سے کبھی ہم تو ڈر نہیں
صورت بدل کے آئیں گے بے نام آئیں گے