وہ دل کہاں ہے اہل نظر دل کہیں جسے

وہ دل کہاں ہے اہل نظر دل کہیں جسے
یعنی نیاز عشق کے قابل کہیں جسے


زنجیر غم ہے خود مری خواہش کا سلسلہ
یا زلف خم بہ خم کہ سلاسل کہیں جسے


ملتا ہے مشکلوں سے کسی کے حضور کا
وہ ایک لحظہ زیست کا حاصل کہیں جسے


کشتی شکستگان یم اضطراب کو
تیرا ہی ایک نام ہے ساحل کہیں جسے


پاتی نہیں فروغ بجز سوز و ساز عشق
شمع حیات در خور محفل کہیں جسے


اس دل کو شاد رکھنے کی خدمت ملی مجھے
غم ہائے روزگار کی منزل کہیں جسے


اس دور قدر دان سخن میں یہ اتفاق
شاعر وہی ہے رونق محفل کہیں جسے


محرومؔ چاک‌ سینۂ ہر گل میں ہے وہ چیز
تاثیر نالہ ہائے عنادل کہیں جسے