وہ چاند ہو کہ چاند سا چہرہ کوئی تو ہو

وہ چاند ہو کہ چاند سا چہرہ کوئی تو ہو
ان کھڑکیوں کے پار تماشا کوئی تو ہو


لوگو اسی گلی میں مری عمر کٹ گئی
مجھ کو گلی میں جاننے والا کوئی تو ہو


مجھ کو تو اپنی ذات کا اثبات چاہئے
ہوتا ہے اور میرے علاوہ کوئی تو ہو


جس سمت جائیے وہی دریا ہے سامنے
اس شہر سے فرار کا رستہ کوئی تو ہو


اپنے سوا بھی میں کوئی آواز سن سکوں
وہ برگ خشک ہو کہ پرندہ کوئی تو ہو


یوں ہی خیال آتا ہے بانہوں کو دیکھ کر
ان ٹہنیوں پہ جھولنے والا کوئی تو ہو


ہم اس ادھیڑ بن میں محبت نہ کر سکے
ایسا کوئی نہیں مگر ایسا کوئی تو ہو


مشکل نہیں ہے عشق کا میدان مارنا
لیکن ہماری طرح نہتا کوئی تو ہو