وہ بے رخی کہ تغافل کی انتہا کہیے

وہ بے رخی کہ تغافل کی انتہا کہیے
بہ ایں ہمہ اسے کس دل سے بے وفا کہیے


غم حیات و غم کائنات سے ہٹ کر
کسی کی قامت و گیسو کا ماجرا کہیے


وہ منفعل ہو کہ ہو مشتعل بلا سے مگر
کبھی تو حال دل زار برملا کہیے


بتائیے کف محبوب دست قاتل کو
لہو کے داغ کو گل کارئ حنا کہیے


ادب کا ہے یہ تقاضا کہ اس کی محفل میں
سکوت ناز کو بھی نغمہ و صدا کہیے


ہم اپنے دور میں جس بانکپن سے زندہ ہیں
اسے ہم اہل محبت کا حوصلہ کہیے


سرورؔ حضرت غالبؔ کے رنگ میں بھی کبھی
حکایت کرم چشم سرمہ سا کہیے