وہ عورت
میں نے اس عورت کا جسم بستر بند میں لپیٹ دیا
بستر بند کو ریلوے اسٹیشن کے مال گودام میں رکھوا دیا
سامان کی رسید کو اپنی بلی کے دودھ میں ڈال دیا
جو اس کاغذ کے سارے لفظ چاٹ گئی
میں نے کمرے میں بکھرا لہو سمیٹ کر
دلہنوں کی مانگ میں بھر دیا
اس کے کپڑے چھیتھڑے بنا کر
مزاروں کے درختوں پر باندھ دیئے
کہ ان کے گرد پھیرا لگانے والی بانجھ عورتوں کے پیٹ میں پھول اگیں
اس کا نام شہر کے درختوں کے تنوں پر کھود دیا
کہ موسموں کی ہوائیں ہر دفعہ اسے چومتی رہیں
اور درختوں کی کھال وقت کے ساتھ اس پر حجاب لے آئے
اس کے ساتھ گزرا وقت، تصویریں، یادیں
ایک صندوق میں بند کر کے گودام میں رکھ دیں
کہ وقت ان کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گا
کمرے میں پڑا قلوپطرہ کا بت اس کی اور میڈونا کی تصویر
بوری میں بند کر کے دریا میں پھینک دیے
ذہن کی ٹیپ سے اس کا ہر نقش
ناخنوں سے کھرچ دیا
ہاتھوں کو ڈیٹول سے دھو دیا
کیا مجھے اس سے بہت محبت تھی؟