وہ ابھی اپنے چہرے میں اترا نہیں
کس سے پوچھوں وہ کیا
شخص ہے جو مری
آرزو کے جھروکوں میں ٹھہرے ہوئے
سارے چہروں میں بکھرا ہوا ہے مگر
خود ابھی اپنے چہرے میں اترا نہیں
کس سے پوچھوں وہ کیا
نام ہے جو مری
دھڑکنوں کے مقدر میں مرقوم ہے
اور وہ کیا اجنبی ہے جو صدیوں سے میرے خیالوں کے قریے میں آباد ہے
مگر میرا صورت شناسا نہیں
کس کی آواز ہے!
جو مری روح میں نغمہ پرواز ہے
کون بتلائے گا اس نگر کا پتہ
جس کی مٹی کی خوشبو مرے جسم کے واسطے درج ہے،
جس کے دیوار و در میری بے خواب آنکھوں سے مانوس ہیں
اور جس کو کبھی میں نے دیکھا نہیں
نارسائی مری نارسائی مری!
جس کو پایا نہ تھا اس کو کھونے کا غم
میری خواہش کے سینے کا ناسور ہے
کس کو آواز دوں کس کا ماتم کروں
وہ ابھی اپنے چہرے میں اترا نہیں
کس سے پوچھوں مرا مدعا کون ہے!
نارسا کون ہے!