وہ آئے نگار میں نہ مانوں

وہ آئے نگار میں نہ مانوں
آ جائے قرار میں نہ مانوں


وہ ہمدم غیر ہو گیا ہے
دم ساز ہو یار میں نہ مانوں


دزدیدہ نظر میں ایک نظر ہے
وہ ہوں نہ دو چار میں نہ مانوں


جو وقت گیا وہ پھر کہاں ہے
چھوٹے وہ شکار میں نہ مانوں


کھٹکا نہ ہو آمد خزاں کا
اے باغ و بہار میں نہ مانوں


باز آئے تو اپنی شوخیوں سے
اے فتنہ شعار میں نہ مانوں


آرام ملے جہاں میں اس کو
تو جس کا ہو یار میں نہ مانوں


نالوں میں تیرے اثر ہو پیدا
اے ساقیؔ زار میں نہ مانوں