وصال و ہجر کی ہمیں لطافتیں کہاں ملیں

وصال و ہجر کی ہمیں لطافتیں کہاں ملیں
سکون قلب دے سکیں وہ راحتیں کہاں ملیں


کہاں کے ماہ و نجم اب یہ دہشتوں کا دور ہے
خیال حسن یاد کی نزاکتیں کہاں ملیں


یہ ان کا شہر آرزو بھی کتنا زرنگاہ ہے
میں ڈھونڈھتی ہی رہ گئی صداقتیں کہاں ملیں


طبیب بھی حبیب بھی شفیق بھی بہت ملے
ملے تو دوست ہر جگہ رفاقتیں کہاں ملیں


وہ سیتا ہوں کہ دروپدی وہ لیلیٰ ہوں کہ ہیر ہوں
وفا کے نام پر انہیں ضمانتیں کہاں ملیں


ہزار داستاں لکھیں سخن طراز لاکھ ہوں
رقم ہوں لوح دل پہ جو عبارتیں کہاں ملیں


ستم بھی ہنس کے سہہ لیے قبول جرم کر لیے
میں بے قصور تھی مگر شہادتیں کہاں ملیں