وصال
دھنک ٹوٹ کر سیج بنی
جھومر چمکا
سناٹے چونکے
آدھی رات کی آنکھ کھلی
برہ کی آنچ کی نیلی لو
نے بنتی ہے
لے بنتی ہے
شہنائی جلتی روتی تھی
اب سر نیوڑھائے
لال پپوٹے بند کئے بیٹھی ہے
نرم گرم ہاتھوں کی مہندی
ایک نیا سنگیت سناتی
دل کے کواڑ پہ رک کر کوئی راتوں میں دستک دیتا تھا
دل کے کواڑ پہ رک کر وہ دستک دیتا ہے
پٹ کھلتے ہیں
آنکھ سے آنکھ دلوں سے
دل ملتے ہیں
گھونگھٹ میں جھومر چھپتا ہے
گھونگھٹ میں مکھڑے چھپتے ہیں
دولت خاں کی دیوڑھی کے کھنڈروں میں
بڈھا ناگ کھڑا روتا ہے
گونگے سناٹے بول اٹھے
گھونگھٹ مکھڑے جھومر پائل
چمک دمک جھنکار امر ہے
پیار امر ہے
پیار امر ہے
پیار کی رات کی آنکھ امڈ آتی ہے
اور دو پھول
تنور بدن
شبنم پی کر سو جاتے ہیں