ویرانہ
رائیگاں وقت کے ویرانے میں
کہ جہاں درد ہراساں ہے
بگولوں کی طرح
مضطرب فکر سے زخمی طائر
کب سے ہیں خاک نشیں
زرد لمحات کے ملبے میں دبے
جذبہ و احساس کے کچلے ہوئے جسم
اور تا حد نظر
کاوش پیہم کے کھنڈر
کہ جہاں یاس کے بھوتوں نے
لگا رکھا ہے ڈیرا اپنا
کہنہ الفاظ کی زنجیر میں جکڑے ہوئے
معنی کے بدن
وہیں دم توڑ رہے ہوں گے کہیں
رائیگاں ربط کے سناٹے میں