وزیر کا خواب

میں نے اک دن خواب میں دیکھا کہ اک مجھ سا فقیر
گردش پیمانۂ امروز و فردا کا اسیر
گرچہ بالکل بے گنہ تھا ہو گیا لیکن وزیر
یعنی اک جھونکا جو آیا بجھ گئی شمع ضمیر
مفت میں کوٹھی ملی موٹر ملی پی اے ملا
جب گیا پکنک پہ باہر ٹور کا ٹی اے ملا


جب ہوا مجھ پر ملمع بڑھ گئی کچھ آب و تاب
ڈال لی مصروفیت کی اپنے چہرے پر نقاب
مجھ سے عزت دار ڈرتے ہیں میں ہوں عزت مآب
''ایں کہ می بینم بہ بیداریست یا رب یا بہ خواب''
خود بھی دل میں سوچ کر یہ بات شرماتا ہوں میں
راستے ویران ہو جاتے ہیں جب جاتا ہوں میں


اب یہ حالت ہے غذا اچھی ہے کپڑے بھی نفیس
اور انگریزی زباں بھی بول لیتا ہوں سلیس
مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں ملکوں کے رئیس
رات دن لیکن نظر میں مجھ کو رکھتی ہے پولس
سب مجھے پہچانتے ہیں کس قدر پانی میں ہوں
ہوں نگہباں قوم کا اور خود نگہبانی میں ہوں


مجھ سے ملنے کو شریف انسان آ سکتے نہیں
بار غم یاران دیرینہ اٹھا سکتے نہیں
درد دل سنتے نہیں مجھ کو سنا سکتے نہیں
بیوی اور بچے بھی کھانا ساتھ کھا سکتے نہیں
سن کے یہ فرزند سے ہوتی ہے حیرانی مجھے
''لکھ دیا منجملۂ اسباب ویرانی مجھے''


میری صورت کو ترستا ہے جو طفل شیرخار
ہو چکے ہیں اس کے ابا ملک و ملت پر نثار
سب خوشامد پیشہ، دنیا دار اور بے روزگار
رات دن ملنے کو آتے ہیں قطار اندر قطار
جو بھی آئے اس سے وعدہ کچھ نہ کچھ کرتا ہوں میں
سر پر آ پہنچا الیکشن اس لیے ڈرتا ہوں میں


فائلیں گھر میں پڑی ہیں اور دفتر میں ہے گھر
شغل بیکاری بہت ہے وقت بے حد مختصر
رات دن سر پر مسلط لنچ عصرانے ڈنر
اور حکومت خرچ اگر دے دے تو حج کا بھی سفر
آج کل پیش نظر ہے ملک و ملت کی فلاح
اک بھتیجے کی دکاں کا بھی کروں گا افتتاح


ملک کے اندر جو اخباروں کے ہیں نامہ نگار
جن کو با عزت نہیں ملتا ہے کوئی روزگار
چائے کی دعوت پہ گھر بلوا کے ان کو بار بار
ان سے کہتا ہوں کہ لکھو کچھ نہ کچھ ہم پر بھی یار
وہ یہ لکھ دیتے ہیں اکثر اچھی باتیں اس کی ہیں
''نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں''


مجھ سے ملنے آئے بیرونی ممالک سے بشر
وہ ہیں میری مملکت سے مجھ سے زیادہ با خبر
چاہتا ہوں میں کہ ان سے گفتگو ہو مختصر
وہ یہ کہتے ہیں کہ رکھ دو سارے دفتر کھول کر
وہ زمیں کی پوچھتے ہیں آسماں کہتا ہوں میں
جب سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو ہاں کہتا ہوں میں


ملک کا غم ہے نہ ہم کو ملت بیضا کا غم
''برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم''
گرچہ جاہل ہوں پر اتنا جانتا ہوں کم سے کم
ساری دنیا میں اگر کچھ ہے تو انساں کا شکم
اے شکم میرے تن فانی کے صدر انجمن
تو'' اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن''


میرے اک سالے کی اک سسرال کا اک رشتہ دار
اپنی کوشش سے ملازم ہو گیا تھا ایک بار
کیونکہ جو سب کا ہے اس کا بھی ہے وہ پروردگار
خویش پرور حاکموں میں ہو گیا میرا شمار
اب عزیز آ جائیں ملنے کو تو گھبراتا ہوں میں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں مجھ کو گھر میں کھو جاتا ہوں میں


بارگاہ حق میں حاضر ہو کے میں نے کی دعا
پیٹ سے مچھلی کے یونس کو کیا تو نے رہا
قید سے یوسف کو تو نے اذن آزادی دیا
اس بھیانک خواب سے آزاد کر مجھ کو خدا
میں نکالا جاؤں گا بے دست و پا اور سر کھلا
''جتنے عرصہ میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا''