وصل شیریں کے لیے
دور تکذیب کا فرہاد ہوں میری خاطر
حق کی آواز صداقت کی اور شیریں ہے
میرا منصب ہے حصول شیریں
وصل شیریں کے لیے تیشہ اٹھاتا ہوں میں
تیشۂ عزم و یقیں جو ابھی کند نہیں
سینۂ سنگ ابھی خشک نہیں
ہر رگ سنگ میں اک جوئے رواں پنہاں ہے
میں کہ فرہاد ہوں رگ رگ میں مری
شعلۂ قطرۂ خوں جولاں ہے
میری گردن پہ ہے سربار امانت کی طرح
میرے ہی تیشے سے کٹ سکتا ہے لیکن یہ کبھی
جھک تو سکتا ہی نہیں
جٹ گئے ہاتھ اٹھے اور بنے ایک کماں
ٹوٹ سکتی نہیں ہاتھوں کی کماں
چھوٹ سکتا نہیں تیشہ میرا
اس کی ہر ضرب جواں سے جب تک
ریزہ ریزہ نہیں ہو
ظلم و تکذیب کا یہ کوہ گراں