ورنہ زخمی کوئی رہ گیر نہیں ہو سکتا
ورنہ زخمی کوئی رہ گیر نہیں ہو سکتا
اس کماندار کا یہ تیر نہیں ہو سکتا
سایہ داری کی روایت کا اگر پاس رکھیں
پھر کھجوروں کا تو شہتیر نہیں ہو سکتا
دفن ہیں ہاتھ ہمارے اسی ملبے میں کہیں
یہ خرابہ کبھی تعمیر نہیں ہو سکتا
کیا ستم ہے کہ بچھڑ کر ترا پھر سے ملنا
وجہ تبدیلیٔ تقدیر نہیں ہو سکتا
ایسی پیوست ہیں پیروں میں یہ کڑیاں کہ فراغؔ
کوئی بھی شامل زنجیر نہیں ہو سکتا