وقت ساکن ہے میں گزر رہا ہوں
وقت ساکن ہے میں گزر رہا ہوں
میں تو اس آگہی سے مر رہا ہوں
بول کر جو مجھے دبا رہا ہے
اس کی آواز سے ابھر رہا ہوں
آئنہ مجھ کو دیکھ کر چپ ہے
جانے میں کس سے بات کر رہا ہوں
میں یہ سمجھا تھا وہ ٹھہر رہا ہے
وے یہ سمجھا تھا میں ٹھہر رہا ہوں
اک پرندہ بنایا کاغذ پر
اور اب اس کے پر کتر رہا ہوں
اس نے وعدہ نہیں لیا مجھ سے
اور کہتا ہے میں مکر رہا ہوں
تیری تصویر نا مکمل ہے
میں ابھی اس میں رنگ بھر رہا ہوں
جو تجھے جانتا نہیں مومنؔ
وہ سمجھتا ہے تجھ سے ڈر رہا ہوں