وقت کی باڑھ
جھلملوں کی آڑ میں رقصاں
درد کی آندھی
شور مچا کر
پانی کی دیوار اٹھا کر
وقت کی سرحد توڑ رہی ہے
پانی کی دیوار میں قطرہ قطرہ روزن کھول رہی ہے
آنکھیں اپنے ہاتھ بڑھائے
روزن کے اس پار کھلی ہیں
عکس کی تہ میں
عکس کو چھو کر دیکھ رہی ہیں
بھیگے چہرے
جسموں کی محتاط فصیلوں پر چپکے بے خود پیراہن
دیواروں پر گیلے تیروں کی بوچھاروں کی تحریریں
نشے میں گم پیڑوں کے خوابیدہ پتے
نکھری گھاس میں چاندی کے لبریز کٹورے
سحر زدہ گلیوں کی بھیگی بھیگی آنکھیں
اور انگڑائی لیتی دھرتی کی پوروں سے اٹھتی سرشاری کی خوشبو
پر ایسے میں جل کر
بجلی دہاڑ کے ہاتھ جھٹک دیتی ہے
پانی کی دیوار کے پیچھے
سب منظر دھندلا دیتی ہے
وقت کی باڑھ لگا دیتی ہے