وقت کے رنگیں گلدستے کو یاد آئے گا ٹھنڈا ہاتھ
وقت کے رنگیں گلدستے کو یاد آئے گا ٹھنڈا ہاتھ
جب بکھریں گے وہ گیسو تو مر جائے گا ٹھنڈا ہاتھ
بھیگی پلکیں سوچ کی الجھن دامن تھامے پوچھ رہی ہیں
کب تک تار گریباں یارو سلجھائے گا ٹھنڈا ہاتھ
ساز تغزل چھیڑنے والو اے افسانے لکھنے والو
آج لکیروں کی تفسیریں دہرائے گا ٹھنڈا ہاتھ
گرم لہو کی بوندیں بوئیں تنہائی کی مٹی ڈالیں
پت جھڑ آئے ان شاخوں پر اگ آئے گا ٹھنڈا ہاتھ
پتھر پتھر جوت جلے گی ساحل ساحل شعلے ہوں گے
بھیگی بھیگی سرد ہوا میں شرمائے گا ٹھنڈا ہاتھ
باغ کے مالی میرے غنچے غیروں نے پامال کئے
پھر بھی تیری پھلواری کو مہکائے گا ٹھنڈا ہاتھ