وقت قیام دست قضا نے نہیں دیا

وقت قیام دست قضا نے نہیں دیا
چلنے لگے تو ساتھ ہوا نے نہیں دیا


پہلے ہی مرحلے میں قلم ہو کے رہ گئے
دست ہنر کو ہاتھ دکھانے نہیں دیا


گرنا تو کیا برا تھا مگر اس کو کیا کہیں
جو گر گیا تو اٹھنے اٹھانے نہیں دیا


اب ان کی کج روی سے شکایات ہیں ہمیں
ہم نے ہی ان کو راہ پہ آنے نہیں دیا


دو چار کاریں کوٹھیاں دس بیس لاکھ بس
اس سے زیادہ خوف خدا نے نہیں دیا


میں صرف ٹیلیفون کا احسان مند ہوں
ان کا پیام باد صبا نے نہیں دیا


اس یار شوخ چشم سے خالدؔ کا ارتباط
اک راز تھا کہ جس کو چھپانے نہیں دیا