ویسے ہی خیال آ گیا ہے

ویسے ہی خیال آ گیا ہے
یا دل میں ملال آ گیا ہے


آنسو جو رکا وہ کشت جاں میں
بارش کی مثال آ گیا ہے


غم کو نہ زیاں کہو کہ دل میں
اک صاحب حال آ گیا ہے


جگنو ہی سہی فصیل شب میں
آئینہ خصال آ گیا ہے


آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے


مدت ہوئی کچھ نہ دیکھنے کا
آنکھوں کو کمال آ گیا ہے


میں کتنے حصار توڑ آئی
جینا تھا محال آ گیا ہے