ویسے دیکھیں تو یہ تا حد نظر رہتے ہیں
ویسے دیکھیں تو یہ تا حد نظر رہتے ہیں
در بہ در پھر بھی یہاں لوگ مگر رہتے ہیں
تھا بھروسا جہاں وہ بستیاں مسمار ہوئیں
اب وہاں بد گماں اور تنہا نگر رہتے ہیں
کھڑکیاں اونچے گھروں کی تو کھلیں بھی شاید
ان کے دروازے سبھی بند ہی پر رہتے ہیں
دل کے دریا میں سفینے کو اتاریں کیسے
اس میں موجوں سے زیادہ تو بھنور رہتے ہیں
ہیں پڑے ہونٹوں پہ اقفال خموشی جن کے
اپنے سینوں میں چھپائے وہ غدر رہتے ہیں
ہو وہ انسان یا وحشی مگر اس جنگل میں
سب پہن کر یہ لبادۂ بشر رہتے ہیں
ہم ہمیشہ رہے باشندے حصاروں کے ہی
سو نہ رہتے ہیں ادھر اور نہ ادھر رہتے ہیں