وحشتؔ مبتلا خدا کے لیے

وحشتؔ مبتلا خدا کے لیے
جان دیتا ہے کیوں وفا کے لیے


آشنا سب ہوئے ہیں بیگانے
ایک بیگانہ آشنا کے لیے


ہم نے عالم سے بے وفائی کی
ایک معشوق بے وفا کے لیے


تھا اسے ذوق عاشق آزاری
خوب میں نے مزے جفا کے لیے


غالب آئی فرامشی اس کی
وعدہ تڑپا کیا وفا کے لیے


یہ بھی تیری گدا نوازی تھی
میں نے بوسے جو نقش پا کے لیے


ذوق نظارہ نے کیا ہے خاک
سرمہ ہوں چشم سرمہ سا کے لیے


جستجو ننگ آرزو نکلی
درد رسوا ہوا دوا کے لیے


بڑھ چلی ہے بہت حیا تیری
مجھ کو رسوا نہ کر خدا کے لیے


ہے خموشی مجھے زباں وحشتؔ
فکر کیا عرض مدعا کے لیے