وہم و گماں جو حد سے گزرتے چلے گئے

وہم و گماں جو حد سے گزرتے چلے گئے
ہم ریزہ ریزہ ہو کے بکھرتے چلے گئے


جلوہ تمہارا ایک نظر دیکھنے کے بعد
دل میں نقوش عشق نکھرتے چلے گئے


اعجاز کم نہیں تھا کچھ ان کے جمال کا
ہم دید کی طلب میں سنورتے چلے گئے


دیں منزلوں نے ان کو صدائیں بہت مگر
دیوانے اپنی دھن میں گزرتے چلے گئے


شاید مری وفاؤں میں ہی تھی کوئی کمی
وعدے سے اپنے وہ تو مکرتے چلے گئے


ایسے پرند جن کی اڑانیں بلند تھیں
ان کے پروں کو لوگ کترتے چلے گئے


عارفؔ رہ حیات میں نیکی کے نام پر
جو کام ہم کو کرنے تھے کرتے چلے گئے