وہی نرم لہجہ

وہی نرم لہجہ
جو اتنا ملائم ہے جیسے
دھنک گیت بن کے سماعت کو چھونے لگی ہو
شفق نرم کومل سروں میں کوئی پیار کی بات کہنے چلی ہو
کس قدر رنگ و آہنگ کا کس قدر خوب صورت سفر
وہی نرم لہجہ
کبھی اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے باتیں کرے گا
تو ایسا لگے
جیسے ریشم کے جھولے پہ کوئی مدھر گیت ہلکورے لینے لگا ہو
وہی نرم لہجہ
کسی شوخ لمحے میں اس کی ہنسی بن کے بکھرے
تو ایسا لگے
جیسے قوس قزح نے کہیں پاس ہی اپنی پازیب چھنکائی ہے
ہنسی کو وہ رم جھم
کہ جیسے فضا میں بنفشی چمکدار بوندوں کے گھنگھرو چھنکنے لگے ہوں
کہ پھر
اس کی آواز کا لمس پا کے
ہواؤں کے ہاتھوں میں ان دیکھے کنگن کھنکنے لگے ہوں
وہی نرم لہجہ مجھے چھیڑنے پر جب آئے
تو ایسا لگے گا
جیسے ساون کی چنچل ہوا
سبز پتوں کے جھانجھن پہن
سرخ پھولوں کی پائل بجاتی ہوئی
میرے رخسار کو
گاہے گاہے شرارے سے چھونے لگے
میں جو دیکھوں پلٹ کے تو وہ
بھاگ جائے مگر
دور پیڑوں میں چھپ کر ہنسے
اور پھر ننھے بچوں کی مانند خوش ہو کے تالی بجانے لگے
وہی نرم لہجہ
کہ جس نے مرے زخم جاں پہ ہمیشہ شگفتہ گلابوں کی شبنم رکھی ہے
بہاروں کے پہلے پرندے کی مانند ہے
جو سدا آنے والے نئے سکھ کے موسم کا قاصد بنا ہے
اسی نرم لہجے نے پھر مجھ کو آواز دی ہے