وہی لڑکی وہی لڑکا پرانا
وہی لڑکی وہی لڑکا پرانا
کہیں ہوتا ہے یہ قصہ پرانا
اکیلے پن میں اب اک تازگی ہے
ہوا جاتا ہے ہر رشتہ پرانا
جہان عقل کا انسان جاہل
نیا جغرافیہ نقشہ پرانا
جہاں دیکھو وہی فرسودہ منظر
جدھر نکلو وہی رستہ پرانا
نیا شاعر بھی الجھا ہے زباں میں
یہ استادوں سے بھی نکلا پرانا
نہ اکتاؤ جو بے پر کی اڑائے
کہ زاہدؔ یار ہے اپنا پرانا