وہی ارمان جیسے جی جو مشکل سے نکلتے ہیں
وہی ارمان جیسے جی جو مشکل سے نکلتے ہیں
بہ شکل اشک و فریاد و فغاں دل سے نکلتے ہیں
کسی میں حوصلہ ہوتا ہے طوفانوں سے لڑنے کا
سفینے یوں تو سب دامان ساحل سے نکلتے ہیں
ہمارے ہم سفر ہم سے مکدر ہیں بس اتنے پر
کہ ہم بچ کر غبار راہ منزل سے نکلتے ہیں
غضب ہے اے زمیں تو ان حسینوں کو نگل جائے
جو حسن ضو فشاں میں ماہ کامل سے نکلتے ہیں
بھروسا کچھ نہیں محرومؔ انوار مسرت کا
شرارے بھی کبھی تاروں کی محفل سے نکلتے ہیں