وہی انداز پرانے نہیں جدت کوئی

وہی انداز پرانے نہیں جدت کوئی
نیا لہجہ نہیں اب زیر سماعت کوئی


لے نئی اور نیا آہنگ اٹھا نغمہ طراز
جاگ اٹھے خفتہ لہو میں نئی حدت کوئی


جھوٹ پر لاکھ ملمع ہو صداقت ملفوف
کھل ہی جاتی ہے نہیں چھپتی حقیقت کوئی


کس لئے خار ہے کھوئی ہوئی غیرت کو جگا
گڑگڑانے سے نہیں ملتی ہے عزت کوئی


لاکھ کر وعدہ خلافی و تغافل اے دوست
دل سے کم ہونی نہیں تیری محبت کوئی


مجھ کو بخشا ہے مرے رب نے یہ اعجاز سخن
میں نے باطل کی نہیں کرنی حمایت کوئی


رستگاری ہے کسے رنج و الم سے میناؔ
عرصۂ جہد ہے یارو نہیں جنت کوئی