وہاں پہنچا دیا ہے عشق نے اب مرحلہ دل کا
وہاں پہنچا دیا ہے عشق نے اب مرحلہ دل کا
جہاں سب فرق مٹ جاتا ہے بسمل اور قاتل کا
جدائی کا وفا کا جور کا الفت کی مشکل کا
رہا ہے سامنا ہر سنگ سے آئینۂ دل کا
چلو اچھا ہوا تم آ گئے دم توڑتا تھا میں
یہی دشوار تھی ساعت یہی تھا وقت مشکل کا
پلٹ آتا ہوں میں مایوس ہو کر ان مقاموں سے
جہاں سے سلسلہ نزدیک تر ہوتا ہے منزل کا
کمال شوق میں مجنوں انا لیلیٰ کا قائل ہے
اگر ایسے میں پردہ خود بخود اٹھ جائے محمل کا
عرق سے تر جبیں خنجر میں لغزش رخ پہ گھبراہٹ
ادب اے سخت جاں پردہ کھلا جاتا ہے قاتل کا
کھڑا ہے ابرؔ در پر کچھ نہیں دیتے نہ دو لیکن
نہیں دل توڑتے ارباب ہمت اپنے سائل کا