وفا سرشت ہوں دوری میں بھی محبت ہے

وفا سرشت ہوں دوری میں بھی محبت ہے
اکیلے رہنے میں لیکن بڑی اذیت ہے


یہ جاگتی ہے تو پھر دیر تک جگاتی ہے
مرے وجود میں سوئی ہوئی جو وحشت ہے


جہاں پہ عشق کی سرحد جنوں سے ملتی ہے
وہاں پہ آ کے ملے وہ اگر محبت ہے


بہت ہیں خواب مگر خواب ہی سے کیا ہوگا
ہمارے بیچ جو حائل ہے وہ حقیقت ہے


وہ دور آیا کہ وہ بھی گھروں کو چھوڑ گئے
جو سوچتے تھے کہ اب مستقل سکونت ہے


سمجھ رہی تھی میں اپنے قیام کو منزل
خبر نہیں تھی کہ آگے بھی ایک ہجرت ہے


بہت سے لوگ دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں
یہ فاطمہؔ ہی نہیں ہے جسے شکایت ہے