وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی

وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی
میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی


لہو کی آگ میں جل بجھ گئے بدن تو کھلا
رسائی میں بھی خسارہ ہے نارسائی میں بھی


بدلتے رہتے ہیں موسم گزرتا رہتا ہے وقت
مگر یہ دل کہ وہیں کا وہیں جدائی میں بھی


لحاظ حرمت پیماں نہ پاس ہم خوابی
عجب طرح کے تصادم تھے آشنائی میں بھی


میں دس برس سے کسی خواب کے عذاب میں ہوں
وہی عذاب در آیا ہے اس دہائی میں بھی


تصادم دل و دنیا میں دل کی ہار کے بعد
حجاب آنے لگا ہے غزل سرائی میں بھی


میں جا رہا ہوں اب اس کی طرف اسی کی طرف
جو میرے ساتھ تھا میری شکستہ پائی میں بھی