ویکسینز اور اومیکرون
برطانیہ اور دیگر مالدار یورپی ممالک خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ ان کا یہ خوف کرونا وائرس کی تیزی سے ابھرتی نئی اقسام کی وجہ سے ہے۔ وہ اس خوف کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ویکسینز ذخیرہ کر رہے ہیں۔ ان کی اس ذخیرہ اندوزی سے پوری عالمی سپلائی چین متاثر ہو رہی ہے، جس وجہ سے کرونا وائرس کی نئی نئی اقسام کو ابھرنے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن وہ مسئلے کو سمجھنے کی بجائے سارا نزلہ غریب افریقی ممالک پر گرا رہے ہیں، جہاں لوگوں کو ویکسینز میسر نہیں آ رہیں ۔ یہ امیر ممالک جنوبی افریقی ممالک سے سرحدیں بند کرنے کا بیانیہ بنا کر عالمی ویکسین کی عدم مساوات کے شکار افراد کو سزا دے رہے ہیں۔
اومیکرون ، جو کرونا وائرس کا نیا تیزی سے ابھرتا روپ ہے، صرف افریقہ میں ہی نہیں پایا گیا۔ اس کے برطانیہ سمیت ایشیا اور یورپ میں کیسز دریافت ہوئے ہیں لیکن اس کے لیے گلوبل ساؤتھ کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حالانکہ، COVID-19 سے نمٹنے کے ذرائع بھی یہاں کے ممالک سے دور رکھے گئے ہیں۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کیسے امیر ممالک نے وبائی مرض سے نمٹا ہے۔
ان کے اس عمل سے ہر مرحلے پر تعاون کی امیدیں دم توڑ گئی ۔ مغربی ممالک نے ویکسین کو بڑے پیمانے پر ، وقت پر عطیہ کرنے کے بجائے ذخیرہ کر رکھا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے، برطانیہ اور یورپی یونین نے جنوبی افریقہ اور بھارت کی جانب سے COVID-19 ٹیکنالوجیز بشمول ویکسینز پر علمی جملہ حقوق یا انٹلیکچول کاپی رائٹ کو منسوخ کرنے کی تجویز کو روک رکھا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک تسلیم کرتے ہیں کہ اس وبائی مرض کو ختم کرنے کے لیے ویکسین کی پیداوار کو بڑی سطح تک بڑھانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ لیکن برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن جیسے رہنماؤں کے لیے، دواسازی کی اجارہ داری کو فروغ دینا زیادہ اہم ہے۔
افریقہ میں صرف سات فیصد لوگ مکمل طور پر ویکسین شدہ ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ افریقہ میں صرف چار میں سے ایک ہیلتھ ورکر مکمل طور پر محفوظ ہے۔ یہ صرف اخلاقی طور پر بھیانک نہیں ہے، بلکہ عالمی صحت کے لیے خطرناک بھی ہے۔ یہ نئی قسموں کی افزائش کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اس وبائی مرض میں وقت کی بہت اہمیت ہے۔ جیسا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سارہ گلبرٹ نے کہا: دنیا کے کونے کونے میں اس کی منتقلی کو روکنا ،وائرس کی نئی اقسام کو تیار ہونے سے روکنے کے لیے ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ خوف ناک حد تک تیزی سے اپنی اقسام میں تبدیلی لاتا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح، افریقی حکومتوں نے اس وبائی مرض کی روک تھام میں غلطیاں کی ہیں۔ لیکن افریقی ممالک کے خستہ صحت کے نظام، بد ترین افلاس کے ہوتے ہوئے، وہاں کی حکومتوں کے لیے مناسب مقدار میں ویکسین حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
ایسٹروزینکا سب سے پہلے افریقہ میں آنے والی چند ویکسینز میں سے ایک تھی۔ لیکن فائزر بورڈ کے رکن سکاٹ گوٹلیب کی جانب سے جب اس کی افادیت اور حفاظت پر سوال اٹھائے گئے اور غلط معلومات پہنچائی گئیں اور یورپی یونین کے رہنماؤں کی طرف سے بد اعتمادی بڑھائی گئی، تو اس کے بعد بہت سے افریقی ممالک میں اس کا استعمال روک دیا گیا۔ جنوبی افریقہ میں، افریقی یونین نے جانسن اینڈ جانسن کے ساتھ جنوبی افریقہ کی کمپنی
Aspen Pharmacare
کے ذریعے ایک نئے معاہدے پر بات چیت کی۔ لیکن جن 220 سے 400 ملین ویکسینز کا وعدہ کیا گیا تھا ان میں سے زیادہ تر ابھی تک فراہم نہیں کی گئیں۔ اس سے بھی بدتر، کرونا کی تیسری لہر کے دوران، جب جونسن اینڈ جونسن کی جنوبی افریقہ میں سب سے زیادہ ضرورت تھی، تو اس دوران، Johnson & Johnson نے ، یورپ اور شمالی امریکہ میں انتہائی ویکسین یافتہ ممالک کو درحقیقت وہ لاکھوں ویکسین برآمد کیں جو جنوبی افریقہ میں تیار ہوئیں تھیں ۔
اگست میں، جنوبی افریقی حکومت اور کیپ ٹاؤن میں قائم بائیوٹیک کمپنی افریجن کے ساتھ کام کرتے ہوئے، ڈبلیو ایچ او نے ایم آر این اے ویکسین تیار کرنے اور انہیں دنیا کے ساتھ بانٹنے کے لیے پہلا عالمی مینوفیکچرنگ حب بنانا شروع کیا۔ ایسا عالمی ادارہ صحت نے اس نسل پرستانہ تصور کو ختم کرنے کے لیے کیا کہ افریقہ محفوظ طریقے سے ویکسین تیار کرنے سے قاصر ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ Moderna اور Pfizer نے حب کے ساتھ کوئی بھی معلومات شیئر کرنے سے انکار کر دیا ۔
اس لیے افریقی سائنسدانوں کو خود ہی اس عمل کو ریورس انجینئر کرنا ہو گا، جس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے پر ستم ظریفی ہے کہ کارپوریٹ میڈیسن کمپنیوں نے عالمی ادارہ صحت کے خلاف اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اقدامات لینے شروع کر دیے ہیں۔
اگر ہم اس خطرناک وبا سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک الگ راستہ بنانا ہوگا، جو ان سرمائے کی بھوکی کمپنیوں کے کوششیں ناکام کر سکے۔ ایک سال زائد ہو گیا ہے کہ سو سے زائد ممالک کرونا وائرس کے خلاف تیار ہونے والی ٹیکنالوجیز پر سے جملہ حقوق فوری معطل کرنے کی التجا کر رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ضروری ہے کہ ہر ملک اپنی اپنی ضرورت کے مطابق بڑے پیمانے پر ان کی تیاری کر سکے۔ لیکن یہ یورپ و برطانیہ جیسے ممالک ہیں جو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ویکسینیشنز کی ہر جگہ پر تیاری کا راستہ روک رہے ہیں۔ انہیں اپنے کردار پر خود ہی غور کرنا ہوگا۔ وگرنہ کوئی بھی اس وبا کی نئی نئی اقسام کو ابھرنے سے نہیں روک پائے گا۔ اور جب یہ اقسام ابھریں گی تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ ممالک متاثر نہ ہوں۔ آپ نے احمد فراز کا وہ شعر تو سنا ہی ہو گا۔
مَیں آج زد پہ اگر ہُوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ، ہَوا کسی کی نہیں