واجب القتل
ماہ کامل حیرت کی تصویر ہو جیسے
حد چاہ نخشب عالمگیر ہو جیسے
ہولی کے رنگوں کا دھوکہ
چہروں پر تحریر ہو جیسے
بھیگی رات میں آب شر انگیز کے مارے
مست ستارے
اپنی چالیں چوک رہے ہیں
دہلیزوں پر پگھلی شمعیں
نیلے بادل کے پردے میں اوجھل ہوتے
آنکھ کے تارے ڈھونڈ رہی ہیں
آئینوں سے نالاں نقش سے عاری چہرے
جذبوں کے عقدوں میں الجھے
مورتیوں کی مالا جپتے
کان میں حلقے ڈالے
گیروے بادل پہنے ناچ رہے ہیں
لال تلک میں آنکھ اگائے
شمعیں تھامے چوب اٹھائے
یک رنگی دستاریں جبے گنبد اوڑھے
صدیوں کی دیوار پہ روتے
رقص وحشت کا زہراب انڈیل رہے ہیں
نا بینائی کے پیغمبر
رنگ رچاتی
موت کی بولی بول رہے ہیں
چیخ رہے ہیں
ان کے پیراہن کو دیکھو
چہرے دیکھو آنکھیں دیکھو
دیکھو سب ہاتھوں کو دیکھو
جس پر رنگ نظر آ جائے
جان سے جائے
لیکن ان کو کون بتائے
سب کے ہاتھ رنگے ہیں
سب کے دامن تر ہیں
آنکھیں خونیں ہیں چہروں پر خوف لکھا ہے
لیکن بے نوری میں
سب تحریریں آنکھوں سے اوجھل ہیں
راہ عدم پر نقش قدم کے ڈھونڈنے والا
سایوں کی بہتات میں سہما
دہشت کی ہر تال پہ رقصاں
سوچ رہا ہے
وقت کے پیروں کو دلدل سے کون نکالے
شب کی اوٹ سے جلتا سورج
اپنے سر پر کون اٹھائے
رنگوں کی بوچھار میں جانے
کس چہرے پر
کس کو رنگ نظر آ جائے
دیو کا سایہ اگلے پل کس کو کھا جائے
کیا معلوم
کہ اپنی باری کب آ جائے