اٹھی نہیں ہے شہر سے رسم وفا ابھی

اٹھی نہیں ہے شہر سے رسم وفا ابھی
بزم سخن کے صدر ہیں ہاشمؔ رضا ابھی


صاحب یہ چاہتے ہیں میں ہر حکم پر کہوں
بہتر درست خوب مناسب بجا ابھی


اس در پہ مجھ کو دیکھ کے درباں نے یہ کہا
ٹھہرو کہ ہونے والی ہی ہے فاتحا ابھی


اس طرح میں غزل کوئی دشوار تو نہیں
دو چار لفظ لکھ دئیے پھر لکھ دیا ابھی


پھر چند لفظ لکھ دئیے پھر گول ہو گئے
پھر قافیے سے باندھ کے چپکا دیا ابھی


پکڑی گئی ردیف تو فوراً یہ کہہ دیا
لکھنا کبھی تھا اور میں یہاں لکھ گیا ابھی