اتریں گہرائی میں تب خاک سے پانی آئے
اتریں گہرائی میں تب خاک سے پانی آئے
سب کو اے دوست کہاں اشک فشانی آئے
پھاندنی پڑ گئی کانٹوں سے بھری باڑ ہمیں
جتنے پیغام تھے پھولوں کی زبانی آئے
بس یہی سوچ کے کردار نبھاتے جاؤ
جانے کس موڑ پہ انجام کہانی آئے
ایک مدت میں خموشی سے رہا محو کلام
تب کہیں جا کے یہ لفظوں میں معانی آئے
کہیں دھوکا ہی نہ ہو شوق نئی منزل کا
میرے ہم راہ کوئی راہ پرانی آئے
شاذؔ خود میں ہی گنوائے ہوئے خود کو رکھنا
ہاتھ جب تک نہ کوئی اپنی نشانی آئے