اٹھی ہے جو قدموں سے وہ دامن سے اڑی ہے
اٹھی ہے جو قدموں سے وہ دامن سے اڑی ہے
کیا کیا نگہ شوق پہ زنجیر پڑی ہے
وہ یاس کا عالم ہے کہ ہر ایک نظر پر
محسوس یہ ہوتا ہے جدائی کی گھڑی ہے
یوں دیکھیے تو مرحلۂ شوق ہے یک گام
چلیے تو یہی ایک قدم راہ کڑی ہے
ہر ایک قدم پر ہے کسی یاد کا سایہ
ہر راہ گزر میں کوئی دیوار کھڑی ہے
ہر غنچے کے چہرے سے ابھرتے ہیں ترے نقش
ہر گل میں ترے حسن کی تصویر جڑی ہے
کھیلی تھی کبھی حسن سے تیرے نگہ شوق
اتنا ہے تجھے یاد یہی بات بڑی ہے
ناصح تری باتوں سے کٹی ہجر کی یہ شام
اک اور فسانہ کہ ابھی رات پڑی ہے
کیا جانئے کیا تھا ترا انداز تبسمؔ
ہر دیکھنے والے کی نظر مجھ پہ پڑی ہے