اٹھا خیمہ یہاں سے کوچ کر آہستہ آہستہ
اٹھا خیمہ یہاں سے کوچ کر آہستہ آہستہ
ابھی تو خیر ممکن ہے سفر آہستہ آہستہ
دریچوں کی ابھی تو روشنی گلیوں میں باقی ہے
مگر جب بند ہو جائیں گے در آہستہ آہستہ
بیابانوں سے نکلے اور سمندر تک چلے آئے
کہ اب کرنا ہے پانی کا سفر آہستہ آہستہ
ادھر سے قیس ہی کیا ایک پوری قوم گزری ہے
یہ بیٹھے گا غبار رہ گزار آہستہ آہستہ
یہاں اک دوسرے کی جان کے دشمن نہ ہو جائیں
یہ ہم دونوں نکل آئے کدھر آہستہ آہستہ
ابھی کچھ بستیاں آباد ہیں کچھ شہر باقی ہیں
ابھی کچھ اور نکلیں گے کھنڈر آہستہ آہستہ
در و دیوار کے اس پار ہم سایوں کو نیند آئی
شب تنہائی مجھ سے بات کر آہستہ آہستہ
ابھی بے تیغ بھی زندہ ہوں لیکن میرے ہاتھوں سے
ثناؔ اب چھوٹ جائے گی سپر آہستہ آہستہ