اسی کو راز بتایا جو رازدار نہ تھا

اسی کو راز بتایا جو رازدار نہ تھا

بھروسہ جس پہ جتایا وہ پائیدار نہ تھا

 

 

جنون اسے بھی رہا آندھیوں پہ قبضہ کا

جسے خود اپنی ہی سانسوں پہ اعتبار نہ تھا

 

 

ندی کے پار پہنچنے میں کتنے ڈوب گئے

پتہ چلا کہ نیا کچھ ندی کے پار نہ تھا

 

 

مگر یہ بات بھی بارش کے بعد صاف ہوئی

فضا میں گرد تھی آئینہ پُر غبار نہ تھا

 

 

نشانہ بازی میں تم بھی کمال ہو واثقؔ

شکار ہو گیا وہ بھی کہ جو شکار نہ تھا

متعلقہ عنوانات