اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے

اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے
میں چاہتا بھی یہی تھا وہ بے وفا نکلے


کتاب ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ ذرا
نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے


میں تجھ سے ملتا تو تفصیل میں نہیں جاتا
مری طرف سے ترے دل میں جانے کیا نکلے


جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے
اسی کے بارے میں سوچو تو فاصلہ نکلے


تمام شہر کی آنکھوں میں سرخ شعلے ہیں
وسیمؔ گھر سے اب ایسے میں کوئی کیا نکلے