اس شوخ سے ملتے ہی ہوئی اپنی نظر تیز

اس شوخ سے ملتے ہی ہوئی اپنی نظر تیز
ہے مہر درخشاں کی شعاعوں کا اثر تیز


وہ پیڑ جو تیزاب سے سیراب ہوا تھا
اس پیڑ کا ہونے لگا ہر ایک ثمر تیز


وہ منزل مقصود پہ پہنچے گا یقیناً
جو راہ میں چلتا رہے بے خوف و خطر تیز


دیتا ہے جدھر ان کو مفاد اپنا دکھائی
ارباب ہوس شوق سے بڑھتے ہیں ادھر تیز


بے نور نہ کر جائے فسادات کی آندھی
لو گھر کے چراغوں کی ذرا اور بھی کر تیز


آثار قیامت کے نظر آتے ہیں آسیؔ
اس دور میں دیکھا گیا ہر ایک بشر تیز